غلام حسین ساجد … نقّارے پر چوٹ پڑی ہے ، پِڑ باندھا سیّاروں نے

نقّارے پر چوٹ پڑی ہے ، پِڑ باندھا سیّاروں نے
ریشم کی دیوار تنی تو سُکھ مانا معماروں نے

میں نے بھی اک ناؤ بنا کر صحرا کی پیمائش کی
ساگر میں جب شہر بسایا     پتّھر کے بنجاروں نے

پانی کی زنجیر نہ ٹُوٹی،منظر موم نہ ہو پائے
دریا کے لب سی رکھّے تھے دو ناراض کناروں نے

اُس ندّی کے پار اترنا اب بھی ممکن ہو نہ سکا
اپنی سی کوشش تو کر  دیکھی ہے کھیون ہاروں نے

ایک قیامت خیز چمک کے ساتھ قیامت ٹوٹ پڑی
بستی کو بھوبھل کر ڈالا رات گئے طیّاروں نے

دِین و دُنیا ، ظاہر ، باطن ، ایک نہیں ہو پائے مگر
میرے اندر آگ لگا رکھّی ہے مِل کر چاروں نے

ایک عجیب سی سرشاری میں دھڑک رہا تھا دل،لیکن
میری پلکیں گیلی کر دیں آج توے کے تاروں نے

ساجد اس آسانی سے میں ہاتھ نہ آنے والا تھا
مجھے اکیلا کر کے چھوڑا آخر میرے یاروں نے
(3 مارچ 2021ء۔لاہور)

Related posts

Leave a Comment